۱۵ آبان ۱۴۰۳ |۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 5, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ اس آیت کا موضوع قیامت کے دن کفار اور رسول کی نافرمانی کرنے والوں کی شرمندگی اور ان کی عذاب سے فرار کی آرزو ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کی حالت کو بیان کرتی ہے جنہوں نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور اب حساب کے وقت ان کی حقیقی صورت حال ظاہر ہو رہی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثًا. النِّسَآء (۴۲)

ترجمہ: اس دن جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے اور رسول کی نافرمانی کی ہے یہ خواہش کریں گے کہ اے کاش ان کے اوپر سے زمین برابر کر دی جاتی اور وہ خدا سے کسی بات کو نہیں چھپا سکتے ہیں۔

موضوع:

اس آیت کا موضوع قیامت کے دن کفار اور رسول کی نافرمانی کرنے والوں کی شرمندگی اور ان کی عذاب سے فرار کی آرزو ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کی حالت کو بیان کرتی ہے جنہوں نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور اب حساب کے وقت ان کی حقیقی صورت حال ظاہر ہو رہی ہے۔

پس منظر:

یہ آیت سورہ نساء کے اس حصے کا تسلسل ہے جس میں قیامت کے دن گواہی، اعمال کی جانچ، اور اللہ کے حضور بندوں کے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت میں خاص طور پر ان لوگوں کی کیفیت کا ذکر ہے جنہوں نے کفر اختیار کیا اور رسول کی مخالفت کی۔ قیامت کے دن وہ چاہیں گے کہ ان پر زمین برابر ہو جائے تاکہ انہیں حساب و کتاب سے نجات مل جائے، لیکن اس دن کچھ بھی چھپانا ممکن نہ ہوگا۔

تفسیر رہنما:

مفسرین کے مطابق، "تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ" کا مطلب ہے کہ یہ کفار اور نافرمان لوگ زمین میں مدغم ہو جانے یا مٹی میں مل جانے کی خواہش کریں گے۔ یہ اس شرمندگی اور عذاب کے خوف کو ظاہر کرتا ہے جس کا انہیں سامنا ہوگا۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اس دن کوئی بھی اللہ سے اپنے اعمال کو نہیں چھپا سکے گا اور سب کچھ ظاہر ہو جائے گا۔

رسولؐ کی نافرمانی سے المیزان نے رسولؐ کی ولایت کی نافرمانی مراد لیا ہے، شریعت کی نہیں۔ چنانچہ اگر رسولؐ کسی کو بلائیں اور وہ اس بلانے پر رسولؐ کی خدمت میں حاضر نہ ہو تو یہ رسولؐ کی بطور حاکم نافرمانی ہے۔

اہم نکات:

کفار اور نافرمانوں کی شرمندگی: قیامت کے دن کافر اور نافرمان افراد زمین میں مدغم ہو جانے کی خواہش کریں گے تاکہ انہیں حساب و کتاب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اعمال کا اظہار: اس آیت میں واضح ہے کہ قیامت کے دن کچھ بھی چھپانا ممکن نہ ہوگا، اور ہر شخص کے اعمال اللہ کے سامنے ظاہر ہو جائیں گے۔

رسول کی نافرمانی کا انجام: رسول کی نافرمانی کرنے والوں کا انجام قیامت کے دن انتہائی خوفناک ہوگا اور وہ اپنی زندگی کی نافرمانیوں پر پشیمان ہوں گے۔

قیامت کا حساب: یہ آیت قیامت کے دن کے حساب و کتاب کی سختی اور کفار کی حقیقت کا اظہار کرتی ہے۔

نتیجہ:

یہ آیت قیامت کے دن کافروں اور نافرمانوں کی شرمندگی اور اس وقت کی حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اس دن اللہ سے کچھ چھپانا ممکن نہیں ہوگا۔ دنیا میں جو لوگ اللہ اور رسول کی نافرمانی کرتے ہیں، انہیں قیامت کے دن انتہائی ذلت اور شرمندگی کا سامنا کرنا ہوگا اور وہ فرار کی ناکام آرزو کریں گے۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر سورہ النساء

تبصرہ ارسال

You are replying to: .